ہم تو قصوروار ہوئے آنکھ ڈال کے
ہم تو قصوروار ہوئے آنکھ ڈال کے
پوچھو کہ نکلے کیوں تھے وہ جوبن نکال کے
آنکھوں سے خواب کا ہو گزر کیا مجال ہے
پہرے بٹھا دیے ہیں کسی کے خیال کے
دل میں وہ بھیڑ ہے کہ ذرا بھی نہیں جگہ
آپ آئیے مگر کوئی ارماں نکال کے
صد شکر وصف قد پہ وہ اتنا تو پھول اٹھے
مضموں بلند ہیں مرے عالی خیال کے
لذت یہی کھٹک کی جو ہے راہ عشق میں
رکھ لوں گا دل میں پاؤں کے کانٹے نکال کے
دل رہ گیا الجھ کے نگاہوں کے تار میں
اچھا وہ جان ڈال گئے آنکھ ڈال کے
سنیے تو اک ذرا مرے اشعار دردناک
لایا ہوں میں کلیجے کے ٹکڑے نکال کے
آئینہ ہے جو ان کا مصاحب تو کیا ہوا
ہم بھی کبھی تھے دیکھنے والے جمال کے
لکھی ہے کھا کے خون جگر یہ غزل جلیلؔ
مصرع نہیں ہیں شعر کے ٹکڑے ہیں لال کے
- کتاب : Kainat-e-Jalil Manakpuri (Pg. 95)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.