ہم آپ قیامت سے گزر کیوں نہیں جاتے
ہم آپ قیامت سے گزر کیوں نہیں جاتے
جینے کی شکایت ہے تو مر کیوں نہیں جاتے
کتراتے ہیں بل کھاتے ہیں گھبراتے ہیں کیوں لوگ
سردی ہے تو پانی میں اتر کیوں نہیں جاتے
آنکھوں میں نمک ہے تو نظر کیوں نہیں آتا
پلکوں پہ گہر ہیں تو بکھر کیوں نہیں جاتے
اخبار میں روزانہ وہی شور ہے یعنی
اپنے سے یہ حالات سنور کیوں نہیں جاتے
یہ بات ابھی مجھ کو بھی معلوم نہیں ہے
پتھر ادھر آتے ہیں ادھر کیوں نہیں جاتے
تیری ہی طرح اب یہ ترے ہجر کے دن بھی
جاتے نظر آتے ہیں مگر کیوں نہیں جاتے
اب یاد کبھی آئے تو آئینے سے پوچھو
محبوبؔ خزاں شام کو گھر کیوں نہیں جاتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.