گزر چکا ہے جو لمحہ وہ ارتقا میں ہے
گزر چکا ہے جو لمحہ وہ ارتقا میں ہے
مری بقا کا سبب تو مری فنا میں ہے
نہیں ہے شہر میں چہرہ کوئی تر و تازہ
عجیب طرح کی آلودگی ہوا میں ہے
ہر ایک جسم کسی زاویے سے عریاں ہے
ہے ایک چاک جو موجود ہر قبا میں ہے
غلط روی کو تری میں غلط سمجھتا ہوں
یہ بے وفائی بھی شامل مری وفا میں ہے
مرے گناہ میں پہلو ہے ایک نیکی کا
جزا کا ایک حوالہ مری سزا میں ہے
عجیب شور مچانے لگے ہیں سناٹے
یہ کس طرح کی خموشی ہر اک صدا میں ہے
سبب ہے ایک ہی میری ہر اک تمنا کا
بس ایک نام ہے عاصمؔ کہ ہر دعا میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.