فسانہ اب کوئی انجام پانا چاہتا ہے
فسانہ اب کوئی انجام پانا چاہتا ہے
تعلق ٹوٹنے کو اک بہانہ چاہتا ہے
جہاں اک شخص بھی ملتا نہیں ہے چاہنے سے
وہاں یہ دل ہتھیلی پر زمانہ چاہتا ہے
مجھے سمجھا رہی ہے آنکھ کی تحریر اس کی
وہ آدھے راستے سے لوٹ جانا چاہتا ہے
یہ لازم ہے کہ آنکھیں دان کر دے عشق کو وہ
جو اپنے خواب کی تعبیر پانا چاہتا ہے
بہت اکتا گیا ہے بے سکونی سے وہ اپنی
سمندر جھیل کے نزدیک آنا چاہتا ہے
وہ مجھ کو آزماتا ہی رہا ہے زندگی بھر
مگر یہ دل اب اس کو آزمانا چاہتا ہے
اسے بھی زندگی کرنی پڑے گی میرؔ جیسی
سخن سے گر کوئی رشتہ نبھانا چاہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.