فقط مال و زر دیوار و در اچھا نہیں لگتا
فقط مال و زر دیوار و در اچھا نہیں لگتا
جہاں بچے نہیں ہوتے وہ گھر اچھا نہیں لگتا
مرے دکھ تک مرے خوں اور پسینے کی کمائی ہیں
تمہیں کیوں میری محنت کا ثمر اچھا نہیں لگتا
شکستہ سطر چاہے رنگ و بوئے پیرہن ٹھہرے
کسی صورت مجھے عجز ہنر اچھا نہیں لگتا
میسر ہو نہ جب تک بوئے تازہ تر کی ہم راہی
ہوا کی طرح گلیوں سے گزر اچھا نہیں لگتا
رہ تیشہ طلب تیری میں وہ دیوار ہوں جس کو
نہ ہو شوریدگی جس میں وہ سر اچھا نہیں لگتا
گلی میں کھیلتے بچوں کے ہاتھوں کا میں پتھر ہوں
مجھے اس صحن کا خالی شجر اچھا نہیں لگتا
چمکتا ہوں ہر اک مہتاب رو کے روئے روشن میں
میں سورج ہوں مجھے شب کا سفر اچھا نہیں لگتا
جسے دیکھیں وہی پھر دیکھنے کی آرزو ٹھہرے
جسے چاہیں وہی بار دگر اچھا نہیں لگتا
اسی خاطر اسے تابشؔ اچکنا چاہتا ہوں میں
مجھے تالاب کی تہہ میں قمر اچھا نہیں لگتا
- کتاب : Ishq Abaad (kulliyat) (Pg. 79)
- Author : Abbas Tabish
- مطبع : Alhamd Publication Lahore (2011)
- اشاعت : 2011
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.