ڈوبا ہوا ہوں درد کی گہرائیوں میں بھی
ڈوبا ہوا ہوں درد کی گہرائیوں میں بھی
میں خندہ زن ہوں کھوکھلی دانائیوں میں بھی
عریاں ہے سارا شہر چلی یوں ہوس کی لہر
تجھ کو چھپا رہا ہوں میں تنہائیوں میں بھی
کیسے تھے لوگ جن کی زبانوں میں نور تھا
اب تو تمام جھوٹ ہے سچائیوں میں بھی
اب نیک نامیوں میں بھی کوئی مزا نہیں
پہلے تو ایک لطف تھا رسوائیوں میں بھی
وہ دوڑ ہے کسی کو کسی کی خبر نہیں
اب کتنی غیریت ہے شناسائیوں میں بھی
رنگین ساعتوں میں کہاں وہ ملاحتیں
پرچھائیوں کا جال ہے رعنائیوں میں بھی
ہم جن کے واسطے تھے تماشا بنے ہوئے
دیکھا تو وہ نہیں تھے تماشائیوں میں بھی
میں ہی تھا وہ جو اپنے ہی تیشے سے مر گیا
ہی ہی تھا شہر جبر کے بلوائیوں میں بھی
کیا دور ہے کہ جس میں صدا بھی سکوت ہے
تنہائیاں ہیں انجمن آرائیوں میں بھی
وہ پیار دو کہ جس کی چمک ماند ہی نہ ہو
ہوتا ہے یہ خلوص تو ہرجائیوں میں بھی
ساز و صدا کے شور میں گم ہو گیا جمیلؔ
کس کس کے دل کا درد تھا شہنائیوں میں بھی
- کتاب : naquush (Pg. 252)
- اشاعت : 1979
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.