ندی کا آب دیا ہے تو کچھ بہاؤ بھی دے
ندی کا آب دیا ہے تو کچھ بہاؤ بھی دے
مری غزل کو نیا پن بھی دے رچاؤ بھی دے
چلا کے سرد ہوا مجھ کو منجمد بھی کر
پگھل کے پھیلنا چاہوں تو اک الاؤ بھی دے
کہ جس کے درد کا احساس تیرے جیسا ہو
کبھی کبھی مری فطرت کو ایسا گھاؤ بھی دے
عذاب سیل مسلسل جو دے رہا ہے مجھے
تو سطح آب پہ چلنے کو ایک ناؤ بھی دے
مسافرت کے کئی مرحلے تمام ہوئے
کہ میری خانہ بدوشی کو اب پڑاؤ بھی دے
- کتاب : دل پرندہ ہے (Pg. 45)
- Author : شکیل اعظمی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.