اب تو مذہب کوئی ایسا بھی چلایا جائے
اب تو مذہب کوئی ایسا بھی چلایا جائے
جس میں انسان کو انسان بنایا جائے
جس کی خوشبو سے مہک جائے پڑوسی کا بھی گھر
پھول اس قسم کا ہر سمت کھلایا جائے
آگ بہتی ہے یہاں گنگا میں جھیلم میں بھی
کوئی بتلائے کہاں جا کے نہایا جائے
پیار کا خون ہوا کیوں یہ سمجھنے کے لیے
ہر اندھیرے کو اجالے میں بلایا جائے
میرے دکھ درد کا تجھ پر ہو اثر کچھ ایسا
میں رہوں بھوکا تو تجھ سے بھی نہ کھایا جائے
جسم دو ہو کے بھی دل ایک ہوں اپنے ایسے
میرا آنسو تیری پلکوں سے اٹھایا جائے
گیت انمن ہے غزل چپ ہے رباعی ہے دکھی
ایسے ماحول میں نیرجؔ کو بلایا جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.