اگرچہ میں اک چٹان سا آدمی رہا ہوں
اگرچہ میں اک چٹان سا آدمی رہا ہوں
مگر ترے بعد حوصلہ ہے کہ جی رہا ہوں
وہ ریزہ ریزہ مرے بدن میں اتر رہا ہے
میں قطرہ قطرہ اسی کی آنکھوں کو پی رہا ہوں
تری ہتھیلی پہ کس نے لکھا ہے قتل میرا
مجھے تو لگتا ہے میں ترا دوست بھی رہا ہوں
کھلی ہیں آنکھیں مگر بدن ہے تمام پتھر
کوئی بتائے میں مر چکا ہوں کہ جی رہا ہوں
کہاں ملے گی مثال میری ستم گری کی
کہ میں گلابوں کے زخم کانٹوں سے سی رہا ہوں
نہ پوچھ مجھ سے کہ شہر والوں کا حال کیا تھا
کہ میں تو خود اپنے گھر میں بھی دو گھڑی رہا ہوں
ملا تو بیتے دنوں کا سچ اس کی آنکھ میں تھا
وہ آشنا جس سے مدتوں اجنبی رہا ہوں
بھلا دے مجھ کو کہ بے وفائی بجا ہے لیکن
گنوا نہ مجھ کو کہ میں تری زندگی رہا ہوں
وہ اجنبی بن کے اب ملے بھی تو کیا ہے محسنؔ
یہ ناز کم ہے کہ میں بھی اس کا کبھی رہا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.