دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا
دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا
سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا
تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط
الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا
اے دل رضائے غیر ہے شرط رضائے دوست
زنہار بار عشق اٹھایا نہ جائے گا
دیکھی ہیں ایسی ان کی بہت مہربانیاں
اب ہم سے منہ میں موت کے جایا نہ جائے گا
مے تند و ظرف حوصلۂ اہل بزم تنگ
ساقی سے جام بھر کے پلایا نہ جائے گا
راضی ہیں ہم کہ دوست سے ہو دشمنی مگر
دشمن کو ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا
کیوں چھیڑتے ہو ذکر نہ ملنے کا رات کے
پوچھیں گے ہم سبب تو بتایا نہ جائے گا
بگڑیں نہ بات بات پہ کیوں جانتے ہیں وہ
ہم وہ نہیں کہ ہم کو منایا نہ جائے گا
ملنا ہے آپ سے تو نہیں حصر غیر پر
کس کس سے اختلاط بڑھایا نہ جائے گا
مقصود اپنا کچھ نہ کھلا لیکن اس قدر
یعنی وہ ڈھونڈتے ہیں جو پایا نہ جائے گا
جھگڑوں میں اہل دیں کے نہ حالیؔ پڑیں بس آپ
قصہ حضور سے یہ چکایا نہ جائے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.