دل کے اندر درد آنکھوں میں نمی بن جائیے
دلچسپ معلومات
. اس غزل کا دوسرا شعر سلیم احمد کی لوح مزار پر بھی درج ہے
دل کے اندر درد آنکھوں میں نمی بن جائیے
اس طرح ملیے کہ جزو زندگی بن جائیے
اک پتنگے نے یہ اپنے رقص آخر میں کہا
روشنی کے ساتھ رہیے روشنی بن جائیے
جس طرح دریا بجھا سکتے نہیں صحرا کی پیاس
اپنے اندر ایک ایسی تشنگی بن جائیے
دیوتا بننے کی حسرت میں معلق ہو گئے
اب ذرا نیچے اتریے آدمی بن جائیے
عقل کل بن کر تو دنیا کی حقیقت دیکھ لی
دل یہ کہتا ہے کہ اب دیوانگی بن جائیے
جس طرح خالی انگوٹھی کو نگینہ چاہئے
عالم امکاں میں اک ایسی کمی بن جائیے
عالم کثرت نہاں ہے اس اکائی میں سلیمؔ
خود میں خود کو جمع کیجے اور کئی بن جائیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.