درد بڑھتا گیا جتنے درماں کیے پیاس بڑھتی گئی جتنے آنسو پیے
درد بڑھتا گیا جتنے درماں کیے پیاس بڑھتی گئی جتنے آنسو پیے
اور جب دامن ضبط چھٹنے لگا ہم نے خوابوں کے جھوٹے سہارے لیے
عشق بڑھتا رہا سوئے دار و رسن زخم کھاتا ہوا مسکراتا ہوا
راستہ روکتے روکتے تھک گئے زندگی کے بدلتے ہوئے زاویے
گم ہوئی جب اندھیروں میں راہ وفا ہم نے شمع جنوں سے اجالا کیا
جب نہ پائی کوئی شکل بخیہ گری ہم نے کانٹوں سے زخموں کے منہ سی لیے
اس کے وعدوں سے اتنا تو ثابت ہوا اس کو تھوڑا سا پاس تعلق تو ہے
یہ الگ بات ہے وہ ہے وعدہ شکن یہ بھی کچھ کم نہیں اس نے وعدے کیے
ختم ہونے کو ہے قصۂ زندگی اب ہمیں آپ سے کوئی شکوہ نہیں
ٹل نہ جائے کہیں موت آئی ہوئی پرسش غم کی زحمت نہ فرمائیے
جب حجابوں میں پنہاں تھا حسن بتاں بت پرستی کا بھی ایک معیار تھا
اب تو ہر موڑ پر بت ہی بت جلوہ گر اب کہاں تک بتوں کو خدا مانیے
کتنے ارباب ہمت نے ان کے لیے بڑھ کے میدان میں جان بھی ہار دی
اب بھی ان کی نگاہوں میں ہے بد ظنی اب بھی ان کو وفا کی سند چاہیے
جس نے لوٹا تھا اس کو سلامی ملی ہم لٹے ہم کو ملزم بتایا گیا
مست آنکھوں پہ الزام آیا نہیں ہم پہ لگتی رہیں تہمتیں بن پیے
جس نے عامرؔ متاع خودی بیچ دی سچ یہ ہے عصمت زندگی بیچ دی
سر جھکانے سے بہتر ہے سر دیجیے بھیک لینے سے بہتر ہے مر جائیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.