بنا ہوا تھا کہیں آب دان کاغذ پر
بنا ہوا تھا کہیں آب دان کاغذ پر
تھی اتنی پیاس کہ رکھ دی زبان کاغذ پر
کرایے دار کی آنکھوں میں آ گئے آنسو
بنائے بیٹھے تھے بچے مکان کاغذ پر
تمہارے خط میں نظر آئی اتنی خاموشی
کہ مجھ کو رکھنے پڑے اپنے کان کاغذ پر
تمام عمر گزاری ہے دھوپ میں شاید
بنا رہا ہے کوئی سائبان کاغذ پر
اٹھا لیا ہے قلم اب تو میں نے بھی یاسرؔ
اتار ڈالوں گا ساری تھکان کاغذ پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.