بہت قرینے کی زندگی تھی عجب قیامت میں آ بسا ہوں
بہت قرینے کی زندگی تھی عجب قیامت میں آ بسا ہوں
سکون کی صبح چاہتا تھا سو شام وحشت میں آ بسا ہوں
میں اپنی انگشت کاٹتا تھا کہ بیچ میں نیند آ نہ جائے
اگرچہ سب خواب کا سفر تھا مگر حقیقت میں آ بسا ہوں
وصال فردا کی جستجو میں نشاط امروز گھٹ رہا ہے
یہ کس طلب میں گھرا ہوا ہوں یہ کس اذیت میں آ بسا ہوں
یہاں تو بے فرصتی کے ہاتھوں وہ پائمالی ہوئی ہے میری
کہ جس سے ملنے کی آرزو تھی اسی کی فرقت میں آ بسا ہوں
کہاں کی دنیا کہاں کی سانسیں کہ سب فریب حواس نکلا
جزا کی مدت سمجھ رہا تھا سزا کی مہلت میں آ بسا ہوں
سوال کرنے کے حوصلے سے جواب دینے کے فیصلے تک
جو وقفۂ صبر آ گیا تھا اسی کی لذت میں آ بسا ہوں
یہ ان سے کہنا جو میری چپ سے ہزار باتیں بنا رہے تھے
میں اپنے شعلے کو پا چکا ہوں میں اپنی شدت میں آ بسا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.