اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے
اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے
اک نظر میری طرف بھی ترا جاتا کیا ہے
میری رسوائی میں وہ بھی ہیں برابر کے شریک
میرے قصے مرے یاروں کو سناتا کیا ہے
پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے
ذہن کے پردوں پہ منزل کے ہیولے نہ بنا
غور سے دیکھتا جا راہ میں آتا کیا ہے
زخم دل جرم نہیں توڑ بھی دے مہر سکوت
جو تجھے جانتے ہیں ان سے چھپاتا کیا ہے
سفر شوق میں کیوں کانپتے ہیں پاؤں ترے
آنکھ رکھتا ہے تو پھر آنکھ چراتا کیا ہے
عمر بھر اپنے گریباں سے الجھنے والے
تو مجھے میرے ہی سائے سے ڈراتا کیا ہے
چاندنی دیکھ کے چہرے کو چھپانے والے
دھوپ میں بیٹھ کے اب بال سکھاتا کیا ہے
مر گئے پیاس کے مارے تو اٹھا ابر کرم
بجھ گئی بزم تو اب شمع جلاتا کیا ہے
میں ترا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا
دیکھ کر مجھ کو ترے ذہن میں آتا کیا ہے
تیرا احساس ذرا سا تری ہستی پایاب
تو سمندر کی طرح شور مچاتا کیا ہے
تجھ میں کس بل ہے تو دنیا کو بہا کر لے جا
چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاتا کیا ہے
تیری آواز کا جادو نہ چلے گا ان پر
جاگنے والوں کو شہزادؔ جگاتا کیا ہے
- کتاب : Deewar pe dastak (Pg. 405)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.