اپنا خاکہ لگتا ہوں
ایک تماشا لگتا ہوں
آئینوں کو زنگ لگا
اب میں کیسا لگتا ہوں
اب میں کوئی شخص نہیں
اس کا سایا لگتا ہوں
سارے رشتے تشنہ ہیں
کیا میں دریا لگتا ہوں
اس سے گلے مل کر خود کو
تنہا تنہا لگتا ہوں
خود کو میں سب آنکھوں میں
دھندلا دھندلا لگتا ہوں
میں ہر لمحہ اس گھر سے
جانے والا لگتا ہوں
کیا ہوئے وہ سب لوگ کہ میں
سونا سونا لگتا ہوں
مصلحت اس میں کیا ہے میری
ٹوٹا پھوٹا لگتا ہوں
کیا تم کو اس حال میں بھی
میں دنیا کا لگتا ہوں
کب کا روگی ہوں ویسے
شہر مسیحا لگتا ہوں
میرا تالو تر کر دو
سچ مچ پیاسا لگتا ہوں
مجھ سے کما لو کچھ پیسے
زندہ مردہ لگتا ہوں
میں نے سہے ہیں مکر اپنے
اب بیچارہ لگتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.