ادا ہوا نہ قرض اور وجود ختم ہو گیا
ادا ہوا نہ قرض اور وجود ختم ہو گیا
میں زندگی کا دیتے دیتے سود ختم ہو گیا
نہ جانے کون سی ادا بری لگی تھی روح کو
بدن کا پھر تمام کھیل کود ختم ہو گیا
معاہدے ضمیر سے تو کر لیے گئے مگر
مسرتوں کا دورۂ وفود ختم ہو گیا
بدن کی آستین میں یہ روح سانپ بن گئی
وجود کا یقیں ہوا وجود ختم ہو گیا
بس اک نگاہ ڈال کر میں چھپ گیا خلاؤں میں
پھر اس کے بعد برف کا جمود ختم ہو گیا
مجاز کا سنہرا حسن چھا گیا نگاہ پر
کھلی جو آنکھ جلوۂ شہود ختم ہو گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.