دھواں کلیجے سے میرے نکلا جلا جو دل بس کہ رشک کھا کر
دھواں کلیجے سے میرے نکلا جلا جو دل بس کہ رشک کھا کر
وہ رشک یہ تھا کہ غیر سے ٹک ہنسا تھا چنچل مسی لگا کر
فقط جو چتون پہ غور کیجے تو وہ بھی وہ سحر ہے کہ جس کا
کرشمہ بندہ غلام غمزہ دغائیں نوکر فریب چاکر
خرام کی ہے وہ طرز یارو کہ جس میں نکلیں کئی ادائیں
قدم جو رکھنا تو تن کے رکھنا جو پھر اٹھانا تو ڈگمگا کر
لٹک میں بندوں کی دل جو آوے تو خیر بندے ہی اس کو لے لیں
وگرنہ آوے تو پھر نہ چھوڑے ادھر سے بالا جھمک دکھا کر
مجال کیا ہے جو دو بدو ہو نظر سے کوئی نظر لڑاوے
مگر کسی نے جو اس کو دیکھا تو سو خرابی سے چھپ چھپا کر
سنے کسی کے نہ درد دل کو وگر سنے تو جھڑک کے اس کو
یہ صاف کہہ دے تو کیا بلا ہے جو سر پھراتا ہے ناحق آ کر
نظیرؔ وہ بت ہے دشمن جاں نہ ملیو اس سے تو دیکھ ہرگز
وگر ملا تو خدا ہے حافظ بچے ہیں ہم بھی خدا خدا کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.