اب کے برسات کی رت اور بھی بھڑکیلی ہے
اب کے برسات کی رت اور بھی بھڑکیلی ہے
جسم سے آگ نکلتی ہے قبا گیلی ہے
سوچتا ہوں کہ اب انجام سفر کیا ہوگا
لوگ بھی کانچ کے ہیں راہ بھی پتھریلی ہے
شدت کرب میں ہنسنا تو ہنر ہے میرا
ہاتھ ہی سخت ہیں زنجیر کہاں ڈھیلی ہے
گرد آنکھوں میں سہی داغ تو چہرے پہ نہیں
لفظ دھندلے ہیں مگر فکر تو چمکیلی ہے
گھول دیتا ہے سماعت میں وہ میٹھا لہجہ
کس کو معلوم کہ یہ قند بھی زہریلی ہے
پہلے رگ رگ سے مری خون نچوڑا اس نے
اب یہ کہتا ہے کہ رنگت ہی مری پیلی ہے
مجھ کو بے رنگ ہی کر دیں نہ کہیں رنگ اتنے
سبز موسم ہے ہوا سرخ فضا نیلی ہے
میری پرواز کسی کو نہیں بھاتی تو نہ بھائے
کیا کروں ذہن مظفرؔ مرا جبریلی ہے
- کتاب : Kalam-e- muzaffar warsi (Pg. 152)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.