آنے والے جانے والے ہر زمانے کے لیے
آنے والے جانے والے ہر زمانے کے لیے
آدمی مزدور ہے راہیں بنانے کے لیے
زندگی فردوس گم گشتہ کو پا سکتی نہیں
موت ہی آتی ہے یہ منزل دکھانے کے لیے
میری پیشانی پہ اک سجدہ تو ہے لکھا ہوا
یہ نہیں معلوم ہے کس آستانے کے لیے
ان کا وعدہ اور مجھے اس پر یقیں اے ہم نشیں
اک بہانہ ہے تڑپنے تلملانے کے لیے
جب سے پہرہ ضبط کا ہے آنسوؤں کی فصل پر
ہو گئیں محتاج آنکھیں دانے دانے کے لیے
آخری امید وقت نزع ان کی دید تھی
موت کو بھی مل گیا فقرہ نہ آنے کے لیے
اللہ اللہ دوست کو میری تباہی پر یہ ناز
سوئے دشمن دیکھتا ہے داد پانے کے لیے
نعمت غم میرا حصہ مجھ کو دے دے اے خدا
جمع رکھ میری خوشی سارے زمانے کے لیے
نسخۂ ہستی میں عبرت کے سوا کیا تھا حفیظؔ
سرخیاں کچھ مل گئیں اپنے فسانے کے لیے
- کتاب : Kulliyat-e-Hafeez Jalandhari (Pg. 130)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.