آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا
آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا
وہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ جو تھا
پھر ترا غم وہی رسوائے جہاں ہے کہ جو تھا
پھر فسانہ بحدیث دگراں ہے کہ جو تھا
منزلیں گرد کے مانند اڑی جاتی ہیں
وہی انداز جہان گزراں ہے کہ جو تھا
ظلمت و نور میں کچھ بھی نہ محبت کو ملا
آج تک ایک دھندلکے کا سماں ہے کہ جو تھا
یوں تو اس دور میں بے کیف سی ہے بزم حیات
ایک ہنگامہ سر رطل گراں ہے کہ جو تھا
لاکھ کر جور و ستم لاکھ کر احسان و کرم
تجھ پہ اے دوست وہی وہم و گماں ہے کہ جو تھا
آج پھر عشق دو عالم سے جدا ہوتا ہے
آستینوں میں لیے کون و مکاں ہے کہ جو تھا
عشق افسردہ نہیں آج بھی افسردہ بہت
وہی کم کم اثر سوز نہاں ہے کہ جو تھا
نظر آ جاتے ہیں تم کو تو بہت نازک بال
دل مرا کیا وہی اے شیشہ گراں ہے کہ جو تھا
جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی
پھر وہی مرحلۂ سود و زیاں ہے کہ جو تھا
آج بھی صید گہ عشق میں حسن سفاک
لیے ابرو کی لچکتی سی کماں ہے کہ جو تھا
پھر تری چشم سخن سنج نے چھیڑی کوئی بات
وہی جادو ہے وہی حسن بیاں ہے کہ جو تھا
رات بھر حسن پر آئے بھی گئے سو سو رنگ
شام سے عشق ابھی تک نگراں ہے کہ جو تھا
جو بھی کر جور و ستم جو بھی کر احسان و کرم
تجھ پہ اے دوست وہی وہم و گماں ہے کہ جو تھا
آنکھ جھپکی کہ ادھر ختم ہوا روز وصال
پھر بھی اس دن پہ قیامت کا گماں ہے کہ جو تھا
قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن
آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا
تیرہ بختی نہیں جاتی دل سوزاں کی فراقؔ
شمع کے سر پہ وہی آج دھواں ہے کہ جو تھا
- کتاب : Gul-e-Naghma (Pg. 24)
- Author : Firaq Gorakhpuri
- مطبع : Maktaba Farogh-e-urdu Matia Mahal Jama Masjid Delhi (2006)
- اشاعت : 2006
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.