ذہن و دل کے فاصلے تھے ہم جنہیں سہتے رہے
ذہن و دل کے فاصلے تھے ہم جنہیں سہتے رہے
ایک ہی گھر میں بہت سے اجنبی رہتے رہے
دور تک ساحل پہ دل کے آبلوں کا عکس تھا
کشتیاں شعلوں کی دریا موم کے بہتے رہے
کیسے پہنچے منزلوں تک وحشتوں کے قافلے
ہم سرابوں سے سفر کی داستاں کہتے رہے
آنے والے موسموں کو تازگی ملتی گئی
اپنی فصل آرزو کو ہم خزاں کہتے رہے
کیسے مٹ پائیں گی زریںؔ یہ حدیں افکار کی
ٹوٹ کر دل کے کنارے دور تک بہتے رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.