ذرا سوچا تو کیا کیا ذہن سے منظر نکل آئے
ذرا سوچا تو کیا کیا ذہن سے منظر نکل آئے
مرے احساس کے کچھ کھنڈروں سے گھر نکل آئے
لگیں دینے سبق وہ پھر پرندوں کو اڑانوں کا
ذرا سے شہر میں جب چینٹیوں کے پر نکل آئے
یہ عالم ہے کہ جب بھی گھر میں کچھ ڈھونڈنے بیٹھا
پرانے کاغذوں سے یاد کے منظر نکل آئے
لگا جب یوں کہ اکتانے لگا ہے دل اجالوں سے
اسے محفل سے اس کی الوداع کہہ کر نکل آئے
دکھائی دے کبھی یہ معجزہ بھی مجھ کو الفت میں
کسی شب چاند بن کر وہ مری چھت پر نکل آئے
ملے ہیں زخم جب سے شوخؔ وہ گلشن سے برتا ہے
بھروسہ کچھ نہیں کس پھول سے پتھر نکل آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.