زخم کچھ ایسے مرے قلب و جگر نے پائے
زخم کچھ ایسے مرے قلب و جگر نے پائے
عمر بھر جو کسی عنوان نہ بھرنے پائے
ہم نے اشکوں کے چراغوں سے سجا لیں پلکیں
کہ ترے درد کی بارات گزرنے پائے
اس سے کیا پوچھتے ہو فلسفۂ موت و حیات
کہ جو زندہ بھی رہے اور نہ مرنے پائے
اس لیے کم نظری کا بھی ستم سہنا پڑا
تجھ پہ محفل میں کوئی نام نہ دھرنے پائے
پاس آداب وفا تھا کہ شکستہ پائی
بے خودی میں بھی نہ ہم حد سے گزرنے پائے
اپنے جذبات کے بپھرے ہوئے طوفاں میں رضاؔ
اس طرح ڈوبے کہ پھر ہم نہ ابھرنے پائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.