یوں ہراساں ہیں مسافر بستیوں کے درمیاں
یوں ہراساں ہیں مسافر بستیوں کے درمیاں
ہو گئی ہو شام جیسے جنگلوں کے درمیاں
زندگی سے اب یہی دو چار پل کا ساتھ ہے
پانیوں سے آ گیا ہوں دلدلوں کے درمیاں
چار جانب پھیلتے ہی جا رہے ہیں ریگزار
تشنگی ہی تشنگی ہے خواہشوں کے درمیاں
دیکھتے ہی دیکھتے آپس میں دشمن ہو گئے
خون کا دریا رواں ہے بھائیوں کے درمیاں
اب تو اس کی زد میں ہے سارا نگر آیا ہوا
وہ بھی دن تھے سیل تھا جب ساحلوں کے درمیاں
ادھ کھلی آنکھیں ہیں خاورؔ اور سانسوں کا عذاب
لاش کی صورت پڑا ہوں کرگسوں کے درمیاں
- کتاب : Pakistani Adab (Pg. 447)
- Author : Dr. Rashid Amjad
- مطبع : Pakistan Academy of Letters, Islambad, Pakistan (2009)
- اشاعت : 2009
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.