یقین ہو تو کوئی راستہ نکلتا ہے
یقین ہو تو کوئی راستہ نکلتا ہے
ہوا کی اوٹ بھی لے کر چراغ جلتا ہے
سفر میں اب کے یہ تم تھے کہ خوش گمانی تھی
یہی لگا کہ کوئی ساتھ ساتھ چلتا ہے
غلاف گل میں کبھی چاندنی کے پردے میں
سنا ہے بھیس بدل کر بھی وہ نکلتا ہے
لکھوں وہ نام تو کاغذ پہ پھول کھلتے ہیں
کروں خیال تو پیکر کسی کا ڈھلتا ہے
رواں دواں ہے ادھر ہی تمام خلق خدا
وہ خوش خرام جدھر سیر کو نکلتا ہے
امید و یاس کی رت آتی جاتی رہتی ہے
مگر یقین کا موسم نہیں بدلتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.