وہ گرد ہے کہ وقت سے اوجھل تو میں بھی ہوں
وہ گرد ہے کہ وقت سے اوجھل تو میں بھی ہوں
پھر بھی غبار جیسا کوئی پل تو میں بھی ہوں
خواہش کی وحشتوں کا یہ جنگل ہے پر خطر
مجھ سے بھی احتیاط کہ جنگل تو میں بھی ہوں
لگتا نہیں کہ اس سے مراسم بحال ہوں
میں کیا کروں کہ تھوڑا سا پاگل تو میں بھی ہوں
وہ میرے دل کے گوشے میں موجود ہے کہیں
اور اس کے دل میں تھوڑی سی ہلچل تو میں بھی ہوں
نکلے ہو قطرہ قطرہ محبت تلاشنے
دیکھو ادھر کہ پیار کی چھاگل تو میں بھی ہوں
کیسے اسے نکالوں میں زندان ذات سے
زندان ذات ہی میں مقفل تو میں بھی ہوں
ماضی کے آئنے میں عطاؔ کوئی خوش ادا
شکوہ کناں تھا کہتا تھا سانول تو میں بھی ہوں
- کتاب : Ghazal Calendar-2015 (Pg. 22.09.2015)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.