وہی جو راہ کا پتھر تھا بے تراش بھی تھا
وہی جو راہ کا پتھر تھا بے تراش بھی تھا
وہ خستہ جاں ہی کبھی آئینہ قماش بھی تھا
لہو کے پھول رگ جاں میں جس سے کھلتے تھے
وہی تو شیشۂ دل تھا کہ پاش پاش بھی تھا
بکھر گئی ہیں جہاں ٹوٹ کر یہ چٹانیں
یہیں تو پھول کوئی صاحب فراش بھی تھا
اٹھائے پھرتا تھا جس کو صلیب کی صورت
وہی وجود تو خود اس کی زندہ لاش بھی تھا
پلک جھپکنے میں کچھ خواب ٹوٹ جاتے ہیں
جو بت شکن ہے وہی لمحہ بت تراش بھی تھا
وہ حرف ناز کہ ریشم کا تار کہیے جسے
وہی تو دل کے لیے اک حسیں خراش بھی تھا
ادائے حسن جسے کہیے بے رخی تنویرؔ
اسی کی طرز تغافل کا راز فاش بھی تھا
- کتاب : Karwaan-e-Ghazal (Pg. 184)
- Author : Farooq Argali
- مطبع : Farid Book Depot (Pvt.) Ltd (2004)
- اشاعت : 2004
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.