تو نے کیوں ہم سے توقع نہ مسافر رکھی
تو نے کیوں ہم سے توقع نہ مسافر رکھی
ہم نے تو جاں بھی ترے واسطے حاضر رکھی
ہاں اب اس سمت نہیں جانا پر اے دل اے دل
بام پر اس نے کوئی شمع اگر پھر رکھی
یہ الگ بات کہ وہ دل سے کسی اور کا تھا
بات تو اس نے ہماری بھی بظاہر رکھی
اب کسی خواب کی زنجیر نہیں پاؤں میں
طاق پر وصل کی امید بھی آخر رکھی
جب بھی جی چاہتا مرنے کو ہزاروں تھے جواز
زندگی ہم نے سلامت تری خاطر رکھی
ہجر کی شب کوئی وعدہ نہ کوئی یاد ظفرؔ
تو نے کیا چیز بچا کر مرے شاعر رکھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.