ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں
ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں
میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں
جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو
میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں
خدا جانے مری گٹھری میں کیا ہے
نہ جانے کیوں اٹھائے پھر رہا ہوں
یہ کوئی اور ہے اے عکس دریا
میں اپنے عکس کو پہچانتا ہوں
نہ آدم ہے نہ آدم زاد کوئی
کن آوازوں سے سر ٹکرا رہا ہوں
مجھے اس بھیڑ میں لگتا ہے ایسا
کہ میں خود سے بچھڑ کے رہ گیا ہوں
جسے سمجھا نہیں شاید کسی نے
میں اپنے عہد کا وہ سانحہ ہوں
نہ جانے کیوں یہ سانسیں چل رہی ہیں
میں اپنی زندگی تو جی چکا ہوں
جہاں موج حوادث چاہے لے جائے
خدا ہوں میں نہ کوئی ناخدا ہوں
جنوں کیسا کہاں کا عشق صاحب
میں اپنے آپ ہی میں مبتلا ہوں
نہیں کچھ دوش اس میں آسماں کا
میں خود ہی اپنی نظروں سے گرا ہوں
طرارے بھر رہا ہے وقت یا رب
کہ میں ہی چلتے چلتے رک گیا ہوں
وہ پہروں آئینہ کیوں دیکھتا ہے
مگر یہ بات میں کیوں سوچتا ہوں
اگر یہ محفل بنت عنب ہے
تو میں ایسا کہاں کا پارسا ہوں
غم اندیشہ ہائے زندگی کیا
تپش سے آگہی کی جل رہا ہوں
ابھی یہ بھی کہاں جانا کہ مرزاؔ
میں کیا ہوں کون ہوں کیا کر رہا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.