شعر کہنے کی طبیعت نہ رہی
شعر کہنے کی طبیعت نہ رہی
جس سے آمد تھی وہ صورت نہ رہی
اس کی دہلیز سے اٹھ جاؤں مگر
لوگ سوچیں گے محبت نہ رہی
اب ملا عدل، گیا دور شباب
منصفی تیری بھی وقعت نہ رہی
وقت کی دوڑ میں رکنا تھا کٹھن
سانس لینے کی بھی فرصت نہ رہی
وقت دیدار عجب حکم ہوا
ہوش کھونے کی اجازت نہ رہی
تم سے جذبات تھے جب تم ہی نہیں
پھر زمانے سے شکایت نہ رہی
میں نکل آؤں بیاباں سے اگر
شہرہ ہو جائے گا وحشت نہ رہی
بھیڑ میں ڈھونڈیں کہاں قیس کو اب
وہ جو پہچان تھی وحشت نہ رہی
دور رفتہ کے نمونے ہو سلامؔ
اب تکلف کی ضرورت نہ رہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.