شام بے کیف سہی شام ہے ڈھل جائے گی
شام بے کیف سہی شام ہے ڈھل جائے گی
دن بھی نکلے گا طبیعت بھی سنبھل جائے گی
اس قدر تیز ہے دل میں مرے امید کی لو
ناامیدی مرے پاس آئی تو جل جائے گی
نرم شانوں پہ نہ بکھراؤ گھنیری زلفیں
ان گھٹاؤں سے شب تار دہل جائے گی
مست آنکھوں کے دریچوں سے نہ جھانکا کیجے
جام ٹکرائیں گے مے خواروں میں چل جائے گی
بن سنور کر مجھے سمجھانے نہ آؤ ورنہ
پھر تمنائے دل زار مچل جائے گی
ماہ نو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہرگز
شہر میں عید کی تاریخ بدل جائے گی
اتنا سج دھج کے عیادت کو نہ آیا کیجے
ورنہ کچھ سوچ کے یہ جان نکل جائے گی
کیوں پریشاں ہو شب ہجر کی آمد پہ جلیلؔ
گردش وقت ہے آج آئی ہے کل جائے گی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.