ساقیا تو نے مرے ظرف کو سمجھا کیا ہے
ساقیا تو نے مرے ظرف کو سمجھا کیا ہے
زہر پی لوں گا ترے ہاتھ سے صہبا کیا ہے
میں چلا آیا ترا حسن تغافل لے کر
اب تری انجمن ناز میں رکھا کیا ہے
نہ بگولے ہیں نہ کانٹے ہیں نہ دیوانے ہیں
اب تو صحرا کا فقط نام ہے صحرا کیا ہے
ہو کے مایوس وفا ترک وفا تو کر لوں
لیکن اس ترک وفا کا بھی بھروسا کیا ہے
کوئی پابند محبت ہی بتا سکتا ہے
ایک دیوانے کا زنجیر سے رشتہ کیا ہے
ساقیا کل کے لیے میں تو نہ رکھوں گا شراب
تیرے ہوتے ہوئے اندیشۂ فردا کیا ہے
میری تصویر غزل ہے کوئی آئینہ نہیں
سیکڑوں رخ ہیں ابھی آپ نے دیکھا کیا ہے
صاف گوئی میں تو سنتے ہیں فناؔ ہے مشہور
دیکھنا یہ ہے ترے منہ پہ وہ کہتا کیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.