قرطاس پہ نقشے ہمیں کیا کیا نظر آئے
قرطاس پہ نقشے ہمیں کیا کیا نظر آئے
سب خشک نظر آئے جو دریا نظر آئے
کس کو شب ہجراں کی گرانی کا ہو احساس
جب دن چڑھے بازار میں تارا نظر آئے
پتھر سا وہ لگتا ہے ٹٹولو نہ جو دل کو
اور ہاتھ میں لے لو تو سراپا نظر آئے
صحرا کی صدا جس کو سمجھتے رہے کل تک
وہ حرف جنوں اب چمن آرا نظر آئے
منزل کا تعین ہی خلا میں نہیں ممکن
ہم کو تو کوئی دشت نہ دریا نظر آئے
اے کاش مرے گوش و نظر بھی رہیں ثابت
جب حسن سنا جائے یا نغمہ نظر آئے
اک حلقۂ احباب ہے تنہائی بھی اس کی
اک ہم ہیں کہ ہر بزم میں تنہا نظر آئے
ہم نے جو تراشے تھے صنم عہد جنوں میں
ان میں سے ہر اک آج شوالہ نظر آئے
اس دور کی تخلیق بھی کیا شیشہ گری ہے
ہر آئنے میں آدمی الٹا نظر آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.