پھر اس سے قبل کہ بار دگر بنایا جائے
پھر اس سے قبل کہ بار دگر بنایا جائے
یہ آئینہ ہے اسے دیکھ کر بنایا جائے
میں سوچتا ہوں ترے لا مکاں کے اس جانب
مکان کیسا بنے گا اگر بنایا جائے
ذرا ذرا سے کئی نقص ہیں ابھی مجھ میں
نئے سرے سے مجھے گوندھ کر بنایا جائے
زمین اتنی نہیں ہے کہ پاؤں رکھ پائیں
دل خراب کی ضد ہے کہ گھر بنایا جائے
بہت سے لفظ پڑے حاشیوں میں سوچتے ہیں
کسی طرح سے عبارت میں در بنایا جائے
وہ جا رہا ہے تو جاتے ہوئے کو روکنا کیا
ذرا سی بات کو کیوں درد سر بنایا جائے
کہیں رکیں گے تو طارق نعیمؔ دیکھیں گے
سفر میں کیا کوئی زاد سفر بنایا جائے
- کتاب : Ghazal Calendar-2015 (Pg. 26.08.2015)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.