پرندے لوٹ کے جب گھر کو جانے لگتے ہیں
پرندے لوٹ کے جب گھر کو جانے لگتے ہیں
ہمیں بھی یاد در و بام آنے لگتے ہیں
فصیل سرحد ماضی دھڑکنے لگتی ہے
جو خواب نیند کا در کھٹکھٹانے لگتے ہیں
حباب دھوپ کی بارش میں پھوٹتے بنتے
ثبات ذات کا مطلب بتانے لگتے ہیں
سر محاذ ترے آتے ہی حریف مرے
یہ میرے ہاتھ مجھے آزمانے لگتے ہیں
ترے خیال کی محفل جو سجنے لگتی ہے
قریب حال گزشتہ زمانے لگتے ہیں
جو آسمان کو ضد ہے تو کم نہیں ہم بھی
کہ بعد برق نئے گھر بنانے لگتے ہیں
جو سنتے ہیں کہ ترے شہر میں دسہرا ہے
ہم اپنے گھر میں دوالی سجانے لگتے ہیں
سنی سنائی سی ہر اک کہانی لگتی ہے
نئے ہیں لفظ معانی پرانے لگتے ہیں
- کتاب : Safarguzar (Pg. 121)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.