نیند آ گئی تھی منزل عرفاں سے گزر کے
نیند آ گئی تھی منزل عرفاں سے گزر کے
چونکے ہیں ہم اب سرحد عصیاں سے گزر کے
آنکھوں میں لیے جلوۂ نیرنگ تماشا
آئی ہے خزاں جشن بہاراں سے گزر کے
یادوں کے جواں قافلے آتے ہی رہیں گے
سرما کے اسی برگ پرافشاں سے گزر کے
کانٹوں کو بھی اب باد صبا چھیڑ رہی ہے
پھولوں کے حسیں چاک گریباں سے گزر کے
وحشت کی نئی راہ گزر ڈھونڈھ رہے ہیں
ہم اہل جنوں دشت و بیاباں سے گزر کے
بن جائے گا تارا کسی مایوس خلا میں
یہ اشک سحر گوشۂ داماں سے گزر کے
آوارگی فکر کدھر لے کے چلی ہے
سر منزل آزادئ انساں سے گزر کے
پائی ہے نگاہوں نے تری بزم تمنا
راتوں کو چناروں کے چراغاں سے گزر کے
اک گردش چشم کرم اک موج نظارہ
کل شب کو ملی گردش دوراں سے گزر کے
ملنے کو تو مل جائے مگر لے گا بھلا کون
ساحل کا سکوں شورش طوفاں سے گزر کے
اک نشتر غم اور سہی اے غم منزل
آ دیکھ تو اک روز رگ جاں سے گزر کے
اب درد میں وہ کیفیت درد نہیں ہے
آیا ہوں جو اس بزم گل افشاں سے گزر کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.