مجھی سے پوچھ رہا تھا مرا پتا کوئی
مجھی سے پوچھ رہا تھا مرا پتا کوئی
بتوں کے شہر میں موجود تھا خدا کوئی
خموشیوں کی چٹانوں کو توڑنے کے لیے
کسی کے پاس نہیں تیشۂ صدا کوئی
درخت ہاتھ اٹھا کر سلام کرتے تھے
مرے جنوں کا مبارک تھا مرحلہ کوئی
سمجھ سکا نہ مگر کوئی پتھروں کی زباں
ہر ایک لمحہ لگا بولتا ہوا کوئی
یہ بند لب ہیں کہ کوئی کھلی ہوئی سی کتاب
مرے سوال پہ اس دم تو بولتا کوئی
ورق پہ رات کے لکھی ہے صبح کی تحریر
یہ ایک وقت ہے بے رنگ و نور سا کوئی
نہ حرف حرف ہوا عکس گفتگو میرا
سمجھنا چاہو تو لے آؤ آئنہ کوئی
اک آنسوؤں کا سمندر تھا جل پری کا لباس
ملا تو ایسے ملا پیکر وفا کوئی
ہر ایک ذہن میں اپنے ہی بند ہے ماجدؔ
فضا کے خول سے باہر ہے راستہ کوئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.