مٹی ہو کر عشق کیا ہے اک دریا کی روانی سے
مٹی ہو کر عشق کیا ہے اک دریا کی روانی سے
دیوار و در مانگ رہا ہوں میں بھی بہتے پانی سے
بے خبری میں ہونٹ دیے کی لو کو چومنے والے تھے
وہ تو اچانک پھوٹ پڑی تھی خوشبو رات کی رانی سے
وہ مجبوری موت ہے جس میں کاسے کو بنیاد ملے
پیاس کی شدت جب بڑھتی ہے ڈر لگتا ہے پانی سے
دنیا والوں کے منصوبے میری سمجھ میں آئے نہیں
زندہ رہنا سیکھ رہا ہوں اب گھر کی ویرانی سے
جیسے تیرے دروازے تک دستک دینے پہنچے تھے
اپنے گھر بھی لوٹ کے آتے ہم اتنی آسانی سے
ہم کو سب معلوم ہے محسنؔ حال پس گرداب ہے کیا
آنکھ نے سچے گر سیکھے ہیں سورج کی دربانی سے
- کتاب : shor bhi sannata bhi (rekhta website) (Pg. 81)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.