میں ہم نفساں جسم ہوں وہ جاں کی طرح تھا
میں ہم نفساں جسم ہوں وہ جاں کی طرح تھا
میں درد ہوں وہ درد کے عنواں کی طرح تھا
تو کون تھا کیا تھا کہ برس گزرے پہ اب بھی
محسوس یہ ہوتا ہے رگ جاں کی طرح تھا
جس کے لیے کانٹا سا چبھا کرتا تھا دل میں
پہلو میں وہ آیا تو گلستاں کی طرح تھا
اک عمر الجھتا رہا دنیا کی ہوا سے
کیا میں بھی ترے کاکل پیچاں کی طرح تھا
جینا تو غضب ہے مگر اے عمر عجب ہے
تجھ کو تو خبر ہے وہ مری جاں کی طرح تھا
اے رات کے اندھیارے میں جاگے ہوئے لمحو!
ڈھونڈو اسے وہ خواب پریشاں کی طرح تھا
مٹی کو یہاں پاؤں پکڑنا نہیں آتا
میں شہر میں بھی گرد کے طوفاں کی طرح تھا
لو حرف غزل بن کے نمایاں ہوا باقرؔ
کل رمز صفت معنیٔ پنہاں کی طرح تھا
- کتاب : Beesveen Sadi Ki Behtareen Ishqiya Ghazlen (Pg. 113)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.