لکھی ہوئی جو تباہی ہے اس سے کیا جاتا
لکھی ہوئی جو تباہی ہے اس سے کیا جاتا
ہوا کے رخ پہ مگر کچھ تو ناخدا جاتا
جو بات دل میں تھی اس سے نہیں کہی ہم نے
وفا کے نام سے وہ بھی فریب کھا جاتا
کشید مے پہ ہے کیسا فساد حاکم شہر
تری گرہ سے ہے کیا بندۂ خدا جاتا
خدا کا شکر ہے تو نے بھی مان لی مری بات
رفو پرانے دکھوں پر نہیں کیا جاتا
مثال برق جو خواب جنوں میں چمکی تھی
اس آگہی کے تعاقب میں ہوں چلا جاتا
لباس تازہ کے خواہاں ہوئے ہیں ذرہ و سنگ
اک آئنہ ہے کوئی دور سے دکھا جاتا
عجب تماشۂ صحرا ہے چاک محمل پر
غبار قیس ہے پردہ کوئی گرا جاتا
جو آگ بجھ نہ سکے گی اسی کے دامن میں
ہر ایک شہر ہے ایجاد کا بسا جاتا
- کتاب : Kulliyat-e-Aziz Hamid Madni (Pg. 478)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.