لڑکھڑاتی ہوا روز کہتی ہے کیا شہر والو سنو
لڑکھڑاتی ہوا روز کہتی ہے کیا شہر والو سنو
ایک پودا کوئی آج پھر جل گیا شہر والو سنو
آ گئے ریت کے ڈھیر دیوار تک بلکہ بازار تک
دشت کے ہاتھ لکھ دیں نہ پھر فیصلہ شہر والو سنو
کیا ستم خیز اجالوں سے اچھے ہمارے اندھیرے نہیں
جنگلوں نے تمہیں کیا نہیں کہہ دیا شہر والو سنو
کوئی تم میں یزید اور شبیر ہے کس کی تقصیر ہے
لوگ کہنے لگے شہر کو کربلا شہر والو سنو
خاک منہ میں مرے ہم پہ کیا کوئی تازہ بلا آئے گی
رو رہا ہے بہت دن سے کوہ ندا شہر والو سنو
پھول بن کر کھلو کوئی خوشبو بنو کچھ مداوا کرو
کہہ رہی ہے فلک نا رسیدہ دعا شہر والو سنو
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 260)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.