لڑکھڑاتا ہوں کبھی خود ہی سنبھل جاتا ہوں
لڑکھڑاتا ہوں کبھی خود ہی سنبھل جاتا ہوں
میں بھی رستوں کے ہی برتاؤ میں ڈھل جاتا ہوں
منتیں مجھ سے کیا کرتے ہیں دریا آ کر
اور میں پیاس چھپا کر کے نکل جاتا ہوں
دن وراثت میں مجھے روشنی دے جاتا ہے
وہ دیا ہوں کہ سر شام ہی جل جاتا ہوں
چاک پہ آ کے نہیں چلتی ہے مرضی میری
یہ بہت ہے جو کسی شکل میں ڈھل جاتا ہوں
بے صدا سی کسی آواز کے پیچھے پیچھے
چلتے چلتے میں بہت دور نکل جاتا ہوں
آئینہ روز بھرم رکھتا ہے قائم میرا
ورنہ یہ سچ ہے میں ہر روز بدل جاتا ہوں
آج محفل سے تری اٹھا ہوں شاعر ہو کر
تیری آنکھوں سے لئے ایک غزل جاتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.