کیا وصل کی ساعت کو ترسنے کے لیے تھا
کیا وصل کی ساعت کو ترسنے کے لیے تھا
دل شہر تمنا ترے بسنے کے لیے تھا
صحرا میں بگولوں کی طرح ناچ رہا ہوں
فطرت سے میں بادل تھا برسنے کے لیے تھا
روتی ہوئی ایک بھیڑ مرے گرد کھڑی تھی
شاید یہ تماشہ مرے ہنسنے کے لیے تھا
کچھ رات کا احساں ہے نہ سورج کا کرم ہے
غنچہ تو بہرحال بکسنے کے لیے تھا
اس راہ سے گزرا ہوں جہاں سانس نہ دے ساتھ
ہر نقش کف پا مرے ڈسنے کے لیے تھا
ہر قطرہ مری آنکھ سے بہنے کو تھا بیتاب
ہر ذرہ مرے پاؤں جھلسنے کے لیے تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.