کیا کہوں کتنا فزوں ہے تیرے دیوانے کا دکھ
کیا کہوں کتنا فزوں ہے تیرے دیوانے کا دکھ
اک طرف جانے کا غم ہے اک طرف آنے کا دکھ
ہے عجب بے رنگیٔ احوال مجھ میں موجزن
نے ہی جینے کی طلب ہے نے ہی مر جانے کا دکھ
توڑ ڈالا تھا سبھی کو درد کے آزار نے
سہہ نہ پایا تھا کوئی کردار افسانے کا دکھ
خون رو اٹھتی ہیں سب آنکھیں نگار صبح کی
بانٹتی ہے شب کبھی جو آئینہ خانے کا دکھ
شمع بھی تو ہو رہی ہوتی ہے ہر پل رائیگاں
کیوں فقط ہم کو نظر آتا ہے پروانے کا دکھ
سر پٹکتی تھیں مسلسل موج ہائے تشنگی
ہونٹ کے ساحل پہ خیمہ زن تھا پیمانے کا دکھ
لوٹتا ہے جب بھی سینے پر شناسائی کا سانپ
لہر اٹھتا ہے بدن میں ایک انجانے کا دکھ
وار دیتا ہوں میں صارمؔ اپنی سب آبادیاں
مجھ سے دیکھا ہی نہیں جاتا ہے ویرانے کا دکھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.