کچھ یہاں بے طلب نہیں ملتا
مجھ کو وہ کیا عجب نہیں ملتا
کچھ چھلکتا ہے کچھ بکھرتا ہے
سب ملے تو بھی سب نہیں ملتا
حیف اب عشق کی دکانوں پر
نالۂ نیم شب نہیں ملتا
کب ہوئی شہر دل کی رکھوالی
ایک گھر بے نقب نہیں ملتا
دل سے خالی ہوئے ہیں جب سے پاؤں
ڈھونڈنے سے بھی رب نہیں ملتا
قہر یہ ہے کہ اب حسینوں میں
پہلے جیسا غضب نہیں ملتا
ہم نہیں مانتے کوئی ہونا
جب تک اس کا سبب نہیں ملتا
مدتوں چومتی ہیں بس آنکھیں
ایک دم لب سے لب نہیں ملتا
اس کو اتنا سنبھال کر رکھا
کہ مجھے خود بھی اب نہیں ملتا
بہر لذت ہے اس کا گم کرنا
ڈھونڈتا ہوں وہ جب نہیں ملتا
اب کہاں پائیں ناقہ و لیلیٰ
بدوؤں کا عرب نہیں ملتا
عہد و احساس کی فصیل ہے بیچ
میر صاحب کا ڈھب نہیں ملتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.