کسی کے زخم پر اشکوں کا پھاہا رکھ دیا جائے
کسی کے زخم پر اشکوں کا پھاہا رکھ دیا جائے
چلو سورج کے سر پر تھوڑا سایہ رکھ دیا جائے
مرے مالک سر شاخ شجر اک پھول کی مانند
مری بے داغ پیشانی پہ سجدہ رکھ دیا جائے
گنہ گاروں نے سوچا ہے مسلسل نیکیاں کر کے
شب ظلمت کے سینے پر اجالا رکھ دیا جائے
تن بے سر ہوں میرے سائے میں اب کون بیٹھے گا
درختوں میں مرے حصے کا سایہ رکھ دیا جائے
بلاتے ہیں ہمیں محنت کشوں کے ہاتھ کے چھالے
چلو محتاج کے منہ میں نوالہ رکھ دیا جائے
دعائیں مانگتے ہیں وہ ہمارے رزق کی خاطر
فقیروں کے لئے تھوڑا سا آٹا رکھ دیا جائے
مجھے چلنے نہیں دیں گے یہ میرے پاؤں کے چھالے
مرے تلووں کے نیچے کوئی کانٹا رکھ دیا جائے
رواجوں کی وہ کثرت ہے کہ دم گھٹنے لگا اپنا
اٹھا کر اب رضاؔ پارینہ قصہ رکھ دیا جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.