خواہش ہمارے خون کی لبریز اب بھی ہے
خواہش ہمارے خون کی لبریز اب بھی ہے
کچھ نرم پڑ گئی ہے مگر تیز اب بھی ہے
اس زندگی کے ساتھ بزرگوں نے دی ہمیں
اک ایسی مصلحت جو شر انگیز اب بھی ہے
حالانکہ اضطراب ہے ظاہر سکون سے
کیا کیجیے اس کا لہجہ دل آویز اب بھی ہے
مدت ہوئی شباب کے چرچے تھے شہر میں
وہ زعفرانی رنگ ستم خیز اب بھی ہے
اشہرؔ بہت سی پتیاں شاخوں سے چھن گئیں
تفسیر کیا کریں کہ ہوا تیز اب بھی ہے
- کتاب : Be Sada Fariyad (Pg. 113)
- Author : Iqbal Ashhar Qureshi
- مطبع : Sarvottam Marketing in Corporation Vivekanand Nagar Kamti, Mumbai ( 2012)
- اشاعت : 2012
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.