خزاں کا قرض تو اک اک درخت پر ہے یہاں
خزاں کا قرض تو اک اک درخت پر ہے یہاں
یہ اور بات کہ ہر شاخ بار ور ہے یہاں
جو سوچ سکتا ہے وہ ذہن جل رہا ہے ابھی
جو دیکھ سکتی ہے وہ آنکھ خوں میں تر ہے یہاں
سنے گا کون ان آنکھوں کی بے صدا فریاد
سماعتوں کا تو انداز ہی دگر ہے یہاں
ستایا آج مناسب جگہ پہ بارش نے
اسی بہانے ٹھہر جائیں اس کا گھر ہے یہاں
حصار جسم سے باہر بھی زندگی ہے مجھے
یہ اور بات کہ احساس معتبر ہے یہاں
- کتاب : Be Sada Fariyad (Pg. 65)
- Author : Iqbal Ashhar Qureshi
- مطبع : Sarvottam Marketing in Corporation Vivekanand Nagar Kamti, Mumbai (2012)
- اشاعت : 2012
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.