اس تماشے کا سبب ورنہ کہاں باقی ہے
اس تماشے کا سبب ورنہ کہاں باقی ہے
اب بھی کچھ لوگ ہیں زندہ کہ جہاں باقی ہے
اہل صحرا بھی بڑھے آتے ہیں شہروں کی طرف
سانس لینے کو جہاں صرف دھواں باقی ہے
زندگی عمر کے اس موڑ پہ پہنچی ہے جہاں
سود ناپید ہے احساس زیاں باقی ہے
ڈھونڈھتی رہتی ہے ہر لمحہ نگاہ دہشت
اور کس شہر محبت میں اماں باقی ہے
میں کبھی سود کا قائل بھی نہیں تھا لیکن
زندگی اور بتا کتنا زیاں باقی ہے
مار کر بھی مرے قاتل کو تسلی نہ ہوئی
میں ہوا ختم تو کیوں نام و نشاں باقی ہے
ایسی خوشیاں تو کتابوں میں ملیں گی شاید
ختم اب گھر کا تصور ہے مکاں باقی ہے
لاکھ آذرؔ رہیں تجدید غزل سے لپٹے
آج بھی میرؔ کا انداز بیاں باقی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.